چلو چھوڑو۔۔۔
چلو چھوڑو۔۔۔!!!
محبت جھوٹ ھے۔۔۔
‘عہدوفا” اک شغل ھے بیکار لوگوں کا
"طلب” سوکھے ھوے پتوں کا بےرونق جزیروں کا
"خلش” دیمک زدہ اوراق پر
بوسیدہ سطروں کا جزیرہ ھے
چلو چھوڑو۔۔۔!!!
کہ اب تک میں اندیھروں کی
دھمک میں سانس کی ظربوں پہ
چاھت کی بنیاد رکھ کر سفر کرتی رہی ھوں
مجھے احساس ھی کب تھا
کہ تم بھی موسموں کے ساتھ
اپنے پیرہن کے رنگ بدلو گے۔۔۔
چلو چھوڑو۔۔۔!!!
مرا ھونا نہ ھونا اک برابر ھے
تم اپنے خال و خد کو آئینوں میں پھر نکھرنے دو
تم اپنی آنکھ کی بستی میں پھر سے اک نیا موسم اترنے دو
‘‘مرے خوابوں کو مرنے دو‘‘
چلو چھوڑو ۔۔۔!
محبت جھوٹ ھے ۔۔۔
محترم
یہ نظم غلطیوں اور خود ساختہ اضافوں سے بھرپور ہے۔
jee ho sakta hai , main ne to jaisay pardy thi waisay likh dee
Aap isko sahi ker ke kion nahi likh detay ?
OK
Buddy
Will soon update you the correct version of the Poem…
I like it
Thanks
آپ کی مطلوبہ نظم چلو چھوڑو محبت جھوٹ ہے ( محسن نقوی) میرے بلاگ پر لکھ دی ہے۔ پڑھ لیجیئے۔
Aap address bhi likh detay to zaida accha hota … kion ke ise doosray log bhi parde saktay thay . ab mujhe search kerna ho ga aapka blog 😦
post address
http://lafunga.wordpress.com/2009/04/13/%da%86%d9%84%d9%88-%da%86%da%be%d9%88%da%91%d9%88/
blog address
http://www.lafunga.wordpress.com