Kuch Din
کچھ دن تو بسو مری آنکھوں میں
پھر خواب اگر ھو جاو تو کیا
کوئی رنگ تو دو میرے چہرے کو
پھر زخم اگر مہکاو تو کیا
جب ھم ھی نہ مہکے پھر صاحب
تم باد صبا کہلاو تو کیا
اک آئینہ تھا سو ٹوٹ گیا
اب خود سے اگر شرماو تو کیا
تم آس بندھانے والے تھے
اب تم بھی ہمیں ٹھکراٰو تو کیا
دنیا بھی وہی تم بھی وہی
پھر تم سے آس لگاٰو تو کیا
میں تنہا تھا میں تنہا ھوں
تم آٰو تو کیا نا آٰو تو کیا
جب دیکھنے والا کوئی نہیں
بجھ جاٰو تو کیا گہناٰو تو کیا
اک وہم ھے یہ دنیا اس میں
کچھ کھوٰو تو کیا کچھ پاٰو تو کیا
ھے یوں بھی زیاں اور یوں بھی زیاں
جی جاٰو تو کیا مر جاٰو تو کیا
A wonderful ghazal by Samina Raja
غزل
ہوائے یاد نے اتنے ستم کیے اس شب
ہم ایسے ہجر کے عادی بھی رو دیے اس شب
فلک سے بوندیں ستاروں کی طرح گرتی ہوئی
بہک رہی تھی وہ شب جیسے بے پیے اس شب
بھڑکتے جاتے تھے منظر بناتے جاتے تھے
ہوا کے سامنے رکھے ہوئے دیے اس شب
عجب تھے ہم بھی کہ دیوار نا امیدی میں
دریچہ کھول دیا تھا ترے لیے اس شب
چراح بام نہ تھے، شمع انتظار نہ تھے
مگر وہ دل کہ مسلسل جلا کیے اس شب
وہ چاک چاک تمنا،وہ زخم زخم بدن
تری نگاہ دلآرام نے سیے اس شب
خبر ہوئی کہ جلاتا ہے کس طرح پانی
وہ اشک شعلوں کے مانند ہی پیے اس شب
وہ شب کہ جس کے تصور سے جان جاتی تھی
نجانے صبح تلک کس طرح جیے اس شب
~*~